کہ جب بچھڑے ہوؤں کی یاد کے جگنو
چمک کھو دیں ۔۔۔
کسی کے ہجر میں رونے سے پہلے ہی
میری آنکھیں ۔۔۔ کبھی سو دیں ۔۔۔
کوئی موسم تو ایسا ہو کہ جب سب پھول الفت کے
کسی اَنمٹ محبّت کے
میرے دل میں کھلیں
پر
ان میں وہ خوشبو نہ ہو باقی
“وہ خوشبو ، جو تمہارے قُرب میں مِحسوس ہوتی تھی “
کوئی موسم تو ایسا ہو
کہ دل کے زخم بھر جائیں
اگر ایسا نہیں ہوتا
تو پھر کتنا ہی اچھا ہو کہ
ساری خواہشیں دل کی
وہ سارے خواب اور ارماں
یونہی گھُٹ گھُٹ کے مر جائں
مجھے آزاد کر جائیں ۔۔۔
کو ئی موسم تو ایسا ہو کہ وہ موسم
تمہاری یاد کا موسم نا ہو ۔۔
کوئی موسم تو ایسا ہو
Reviewed by Unknown
on
June 21, 2016
Rating:

No comments: