recent posts

banner image

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا



رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا

بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں
دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا

شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا

گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی
لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آکر نہیں گیا

تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد
جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا

رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا

ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی
وہ خار وخس میں آگ لگا کر نہیں گیا

شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا

شہزاد احمد

رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا Reviewed by Unknown on April 17, 2017 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.