مشہور فلاسفر نپولین کا قول ھے کہ
"مجھے اک اچھی ماں دو میں تمہیں اک عظیم
قوم دوں گا"..
قوم دوں گا"..
اک مشہور کہانی بھی سناتی ھوں کہ اک
استاد صاحب کلاس میں بچوں سے پوچھ رہے
تھے آپ بڑے ھو کر کیا بنیں گے ؟ سب بچے
بتا رھے تھے سر میں ڈاکڑ بنوں گا کسی نے کہا
سر میں انجینئر بنوں گا کسی نے کہا سر میں
سر میں انجینئر بنوں گا کسی نے کہا سر میں
وکیل بنوں گاکسی نے سر میں پائلٹ بنوں گا
اک بچہ کھڑا ھوا بولا سر میں اصحا بی بنوںگا
سب بچے ہنسنے لگ گئے سر نے پوچھا بیٹا آپ
کیوں اصحابی بننے کا سوچا؟ بچہ بولا سر
کیوں اصحابی بننے کا سوچا؟ بچہ بولا سر
میری ماں روز رات کو سونے سے پہلے مجھے
اک اصحابی کی کہانی سناتی ھیں میں وہ
کہانیاں سن کے اندازہ لگایا اس دنیا میں اگر
کوئی بہت عظمت والا اور رتبے والا ھے تو وہ
ا صحابی ھیں اسلئے میں بھی اصحا بی بنو ں
گا.....اا کہانی سنا نے کا مقصد بس اتنا تھا کہ
آپنے دیکھا بچے کو وہی یاد تھا اسنے وہی کچھ
سیکھا جو اسکی ماں نے سکھایا بتایا..اک ماں
بچےکو بچپن سے جو سکھا تی ھے وہی اسکے
ذھن میں بیٹھ جاتا رچ بس جاتا بڑا ھونے کے
بعداسے جو بھی سکھایا جائے وہ ویسے نہیں
سیکھ پا تا جیسے بچپن کا پڑھایا ذھن نشین
رھتا ھے...آجکل ھمارے ملک کے جو حالات
ھیں سب حکو مت کو کوس رھے بیں کہ حکو
مت یہ نہیں کیا ایسا کر رھی ھے حکومت
سسٹم بدلنا چاہئے نیا پاکستان بنائیں وغیرہ
وغیرہ.مجھے بتا ئیں آپ لوگ، آپ سب جو
دوسروں کو الزام دیتے ھیں حکومت کو کوستے
ھیں کبھی اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھا
ھیں کبھی اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھا
آپ نے وطن کو کیا دیا وطن کے لئے کیا کیا؟
دوسروں پہ الزام تراشی سے بہتر ھے بندہ اپنے
آپکو دیکھے یقین مانئیے اک ایسا معاشرہ
آپکو دیکھے یقین مانئیے اک ایسا معاشرہ
جہا ں پانی کے کولروں کے ساتھ رکھے
گلاسوں کو زنجیروں کے ساتھ باندھ کے رکھنے
کی ضرورت ھو اور جہاں مسجدوں میں
کی ضرورت ھو اور جہاں مسجدوں میں
نمازوں کی بجائے اپنے جوتوں کی فکر رھتی ھو
وہاں سسٹم نہیں بدلا کرتے.وہاں حکومتیں
وہاں سسٹم نہیں بدلا کرتے.وہاں حکومتیں
بدلنے سے حالات نہیں بدلتے وہاں ضرورت
ھوتی ھے سوچ بدلنے کی اپنا آپ بدلنے کی ،
اور اسکے لئے ضرورت ھے اک اچھی ماں کی
جو آپکی نسل بدل سکے معاشرہ بدل سکے اسی
ماں کی جسکا نپولین نے کہا...یہا ں اک اور
ماں کی جسکا نپولین نے کہا...یہا ں اک اور
کہانی سناتی ھوں کہ اک چور تھا بہت ساری
چوریوں کے بعد جب پکڑا گیا تو اسے سزائے
موت سنا دی گئی پولیس نے جب اس سے
آخری خواہش پوچھی گئی تو اسنے کہا پہلے
میری ماں کو پھانسی دی جائے سب حیران
ھوگئے کہ کیوں؟؟؟ جب اس سے وجہ پوچھی
گئی تو اسنے کہا بچپن میں میں نے اک چوری
کی تھی تو میری ماں نے مجھے شاباش دی
تھی بات پھر وہی آئی کہ ماں نے جو سکھایا
اسنے وہی سیکھا آج ھم اپنے ماحول کو سسٹم
بدلنے کی بات کرتے ھیں اپنے حکمرانوں کو
بدلنے کی بات کرتے ھیں اپنے حکمرانوں کو
الزام دیتے ھیں آخر ان حکمرانوں کو جنم دینے
والی بھی تو اک ماں تھی نا ھمارے بانی
پاکستان کو جنم دینے والی بھی اک ماں تھی
تو انسانیت کے دشمن دہشت گرد انکی
پیدائش کے پیچھے بھی اک ماں ھے نا آپ
حکومت کو مت دیکھیں آپ اپنی تربیت پہ
غور کریں اگر آپنے اک اچھی بیٹی اور بہن کی
پرورش کی ھے تو آپ سو فیصد یقین کر لیں
پرورش کی ھے تو آپ سو فیصد یقین کر لیں
اک دن یہ سسٹم بدلے گا اور ضرور بدلے گا
ضرورت ھمیں اک اچھے حکمران کی نہیں اک
اچھی بہن اور بیٹی کی ھے جو اک اچھی نسل
کی ہرورش کر سکے جو آگے چل کر اک
معاشرہ ببنے گا اک ریاست اک قوم بنے گی
اپنی سوچ کو بدلیں اپنی بیٹی کو اچھی سوچ
دیں یہ سوچ ھی ھے جو قوموں کی تقدیر
بدلتی ھے جہاں ننگے جسموں ہھرنے والی
عورتیں ھوں اور سر بازار پوسٹروں اور
اشتہاروں کی صورت بیچ گلی چوراھوں کی
زینت بنی ھوں جنہیں اپنی عزت اپنے مقام
تک کی پہچان نہ ھو جو دل میں بغض رکھ
کے دوسروں کے لئے گھڑے کھودیں وہ عورتیں
محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد جیسے عظیم
لیڈر جنم نہیں دے سکتی وہا ں غدار اور یزید
جیسے لوگ جنم لیتے ھیں ( اب میں ان یزیدوں
کا نام نہیں لیتی آپ سب تو واقف ھیں نا؟)
کا نام نہیں لیتی آپ سب تو واقف ھیں نا؟)
ھمیں خود کو بدلنا ھے اپنی سوچ کو بدلنا ھے
اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھنا ھے اک
اچھی بیٹی اود اچھی بہن کی پرورش کرنی ھے
آپکا معاشرہ آپکا سسٹم خود بخود بدلے گایہ
آپکا معاشرہ آپکا سسٹم خود بخود بدلے گایہ
صرف دعوی نہیں چیلنج ھے اور آزمائش شرط
ھے خدا آپکو مجھے عمل کی تو فیق دے (آمین)
وہ انسان نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی
منظر سے
جس دور میں جینا مشکل ھو اس دور میں جینا
لازم ھے
لازم ھے
از قلم ساریہ چوہدری
Maa by Saria Chaudhary
Reviewed by Unknown
on
July 19, 2017
Rating:
No comments: